ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھرتے ہوئے اثرات نے پاکستان کی تعمیر نو اور شہری معیشت

ماحولیاتی تبدیلیوں کے بھرتے ہوئے اثرات نے پاکستان کی تعمیر نو اور شہری معیشت
گزشتہ صدی کے اختتام اور موجودہ صدی کے آغاز سے پاکستان کو تواتر سے قدرتی آفات کا سامنا ہے اور ان آفات کی شدت دن بہ دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ ان میں سے بہت سی قدرتی آفات کو ہم نے بھلا دیا، مگر بہت سی قدرتی آفات ایسی ہیں جن سے سبق سیکھ کر پاکستان نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تیاری کی ہے۔ مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی پاکستان کو شدید ہوتی ہوئی قدرتی آفات کا سامنا ہے۔
حالیہ دنوں پاکستان نے تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کیا اور اب ہماری ساری توجہ سیلاب متاثرین اور ان کی بحالی پر مرکوز ہے۔ مگر پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی انتہائی موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جون اور جولائی میں مون سون بارشوں میں سیلاب سے متاثرہ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں میں تاحال پانی بڑی مقدار میں کھڑا ہے اور سرد موسم کے آنے کے باوجود نہ صرف لوگوں کے گھروں کی تعمیر نو یا مرمت ہوسکی ہے بلکہ سردی سے بچاؤ کےلیے ان متاثرین کے پاس کوئی ذریعہ بھی نہیں۔

سیلاب کی تباہ کاریوں اوراس سے بحالی پر بات کرنے سے قبل پڑھنے والوں کو اس سال موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے رونما ہونے والے چند انتہائی اہم واقعات کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس سال کے آغاز پر سیاحتی مقام مری میں سیاحوں کی ہلاکت کا معاملہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا، جس میں سیاح نہ صرف جان سے گئے بلکہ جو بچ گئے ان کی حالت بھی کئی دن تک سنبھل نہ پائی۔
اس سرد ترین موسم کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2022 تاریخ کا گرم ترین سال ہوگا۔

اسی گرمی کی وجہ سے کراچی میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ گرمی کی شدت صرف شہروں تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اس نے پاکستان میں جنگلات کو بری طرح متاثر کیا۔ جنگلوں میں لگی آگ نے حالات کو مزید مخدوش بنادیا۔ پاکستان میں پہلے ہی جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے مگر حالیہ گرمیوں میں جنگلات میں لگنے والی آگ نے بلوچستان کے شیرانی جنگل میں لگے چلغوزے کے درختوں کو بری طرح سے نقصان پہنچایا اور یہ آگ ایک ماہ سے زائد عرصے تک لگی رہی جس میں سیکڑوں سال پرانے درخت بھی جل کر راکھ ہوگئے، یعنی ایسی آگ لگنے کا واقعہ کم از کم دو سو سال کے بعد ہی رونما ہوا ہے۔

اس آگ سے مقامی افراد جو کہ چلغوزے کی فروخت سے روزگار کماتے تھے، کو خیبرپختونخوا میں بھی جنگل میں آگ لگی جس نے قیمتی درختوں کو نقصان پہنچایا اور سوات میں تحریک انصاف کے بلین ٹری سونامی میں لگائے گئے درخت بھی جل گئے۔ گرمی کی شدت سے آگ لگنے کے واقعات صرف سوات اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ہی رونما نہیں ہوئے بلکہ وفاق درالحکومت بھی اس کی لپیٹ سے محفوظ نہیں رہا۔

اسلام اباد سے متصل نیشنل پارک مارگلہ ہلز پر بھی 60 سے زائد مقامات پر شدید آگ لگی جس کو بجھانے کےلیے 20 ہیلی کاپٹرز استعمال ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو نہ صرف شدید بڑھتی گرمی اور شدید ہوتی سردیوں کا ہی سامنا نہیں بلکہ پاکستان، جس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بھی موجود ہے، کے بعض علاقوں میں بدترین قحط کا بھی سامنا ہے۔

چولستان اور تھرپارکر میں حالیہ مون سون سے قبل قحط سالی کا سامنا تھا۔ صرف چولستان میں 1200 ایسے تالاب، جنہیں مقامی زبان میں ٹوبے کہا جاتا ہے، میں سے نوے فیصد خشک ہوئے اور تقریباً 2 لاکھ کی آبادی اپنے 20 لاکھ مویشیوں کے ساتھ بوند بوند پانی کو ترس یعنی اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قحط، خشک سالی، شدید گرمی کی لہر، بڑھتی ہوئی سردیوں، جنگلات میں آگ، اربن فلڈنگ، کلاؤڈ برسٹ اور اس جیسے کئی مسائل کا سامنا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔